(تیسر ا بند)
اگر این نامہ را جبریل خواند چون گرد آن نور ناب از خود فشاند
مطلب: اگر یہ خط جبریل جیسا مقرب اور نورانی فرشتہ پڑھ لے تو وہ اپنے نورانی جسم کو چھوڑ کر جسم خاکی اختیار کر لے ۔ میری شاعری فرشتوں کو بھی عشقِ الہٰی سکھاتی ہے ۔
بنالد از مقام و منزل خویش بہ یزدان گوید از حال دل خویش
مطلب: وہ جبریل اپنے نورانی مگر سوز و گداز کے بغیر مقام پر نالہ و فریاد کر رہا ہے اور خدا کو اپنے دل کا حال اس طرح بیان کر رہا ہے ۔
تجلی را چنان عریان نخواہم نخواہم جز غم پنہان نخواہم
مطلب: میں تیرے جلووں کو اس طرح بے پردہ دیکھنا نہیں چاہتا ۔ میں کچھ نہیں چاہتا سوائے اپنے اندر کے پوشیدہ غم کے ۔ (ہر وقت کے دیدار اور جلووں نے میرے دل سے سوز و گداز کی لذت نکال لی ہے ۔ عشق کی لذت سے آشنا کرنے کے لیے مجھے خاکی جسم عطا کر دے تاکہ میں بھی فراق کی ٹیسیں محسوس کر سکوں ) ۔
گزشتم از وصال جاودانے کہ بینم لذت آہ و فغانے
مطلب: اے خدا! میں نے تیرے ہمیشہ کے وصال کو ترک کیا ۔ تاکہ میں تیرے فراق میں پیدا ہونے والی آہ و فغاں کی لذت حاصل کر لوں ۔
مرا ناز و نیاز آدمے دہ بجان من گداز آدمے دہ
مطلب: مجھے آدم کا ناز و نیاز عطا کر دے ۔ میری جان میں آدم کا گداز (کیفیت عشق) پیدا کر دے ۔ تا کہ میں بھی معشوق کے حضور عاجزی کا کیف و سرور پا سکوں ۔